Some questions about death
سوال:- کیا ہم کبھی موت پر قابو پا سکیں گے؟؟
جواب:
تحریر:- ڈاکٹر محمد رحمان
جی کیوں نہیں۔ اس کے لیے بس ایک بار مرنا پڑے گا۔
یہ تو سچ ہے کہ اگر کبھی انسان نے موت پر قابو پایا تو یہ طریقہ کار سائنس کا ہی مرہون منت ہوگا لیکن کیا "سائنس کبھی موت پر قابو پا سکے گی" اس سوال کا جواب بذات خود سائنس نہیں دے سکتی۔سائنس کے بعد ہمارے پاس لاجیکل ریزننگ بچتی ہے۔ تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ
1) سائنس کی بدولت ہم نے ہوا میں اڑنا سیکھ لیا جو کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا
2)دوسرے سیاروں کا رخ کیا جسے ناممکن سمجھا جاتا تھا
3) ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک دوسرے سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے ایک دوسرے کے سامنے موجود ہوں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ ممکن ہے؟
یعنی سائنس کی بدولت بہت سی چیزیں ہیں جنہیں ماضی میں ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن اب وہ ممکن ہو چکی ہیں چنانچہ ہم یہ استقرائی استدلال (انڈکٹو ریزننگ) کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ایک دن سائنس موت پر بھی قابو پا لے گی
دوسری طرف یہی آرگومنٹ ہم اس طرح بھی استعمال کر سکتے ہیں کہ فلاں نا ممکن کو سائنس ابھی تک ممکن نہیں کر سکی فلاں ناممکن بھی ابھی تک ناممکن ہے فلاں عمل بھی.......
اس لیے سائنس موت پر بھی قابو نہیں پا سکے گی۔
قصہ مختصر یہ کہ ہماری لاجیکل ریزننگ بھی اس سوال کا حتمی جواب نہیں دے سکتی۔
تو کیا اس سوال کا حتمی جواب موجود ہے؟
جی ہاں اس سوال کا جواب ہمیں تیسرے طریقہ علم سے مل سکتا ہے جسے وحی کہتے ہیں۔
اور اس کے مطابق آپ کو ایک بار تو مرنا پڑے گا لیکن جب آپ کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو آپ موت کی قید سے آزاد ہو جائیں گے۔
یہاں تیسرے طریقہ علم یعنی وحی کے بارے میں پھیلائے گئے غلط تاثر پر بات ہو جائے۔ وحی کے بارے میں ایک غلط تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ محض عقیدے کا نام ہے جس پر آنکھیں بند کر کے یقین کیا جاتا ہے۔ اس تاثر کے برعکس وحی اجتماعی کی بجائے انفرادی تجربات اور مشاہدات پر مبنی علم ہے۔ یعنی سائنس میں ہم اجتماعی مشاھدات کو ترجیح دیتے ہیں جنہیں دہرایا جا سکے اور وحی میں یہ مشاھدات انفرادی ہوتے ہیں اور سب کے سامنے دہرائے بھی نہیں جا سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماعی مشاہدات پر مبنی علم (سائنس) سچائی کے سفر میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ صرف اجتماعی مشاہدات ہی سچائی پر مشتمل ہوتے ہیں اور انفرادی مشاہدات ہمیشہ غلط ہی ہوتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ اجتماعی مشاہدات جنہیں دہرایا بھی جا سکتا ہو ان پر یقین کرنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی آپ سے آ کر کہے کہ میں نے فلاں پہاڑ پر دس آنکھوں والا ایک انسان دیکھا تو آپ شاید یقین نہ کریں لیکن اگر سو آدمی آ کر یہی بات کہیں تو آپ کو یقین کرنے میں آسانی ہو گی۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیسے فیصلہ کیا جائے کہ انفرادی مشاہدہ کا دعویٰ کرنے والا ٹھیک کہہ رہا ہے یا نہیں؟ تو اسکے لئے سب سے زیادہ مدگار چیز مشاہدہ کرنے والے کی کریڈیبلٹی ہے۔ یہ ایسا معیار جو طے کرتا ہے کہ کہی گئی بات درست ہو سکتی ہے کہ نہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ نے اس بارے میں بہت اعلیٰ درجے کا کام کیا ہے کبھی وقت ملے تو اسے ضرور پڑھیں۔ ساری گفتگو کا خلاصہ یہ کہ سائنس سچائی کی جانب ایک راستہ ہے لیکن کچھ لوگ اسے واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ سائنٹزم کا شکار ایسے لوگ بنا کسی مستند دلیل کے خود ساختہ میعار اپنا کر خود کو تو دھوکا دے ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔
New Topic
السلام و علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (81)
اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا۔
مجھے اسی دن کا انتظار تھا کہ کب کوئی مرزا کی سانس والی نالی پر پاؤں رکھے گا اور وہ دن آ گیا ہے میں نے اسے بڑا تجسّس سے سنا ہے ان کی ایک بات بار بار بہت دھیان سے اس کی گفتگو سب سے پہلے ان لوگوں کے ایمان کو چاٹتی ہے جو پہلے سے اسلام بیزار ہیں وہ ایسا بدبخت ہے جو سائنس اور اسلام کو ٹکرا کر موازنہ کر رہا ہے اس کی اگلی خوبی اپنی ویڈیو ریکارڈنگ میں گن کر بندے سامنے بٹھاتا ہے اور انہیں سوال پہلے سے بتا کر وہی کتاب کا صفحہ کھولے رکھتا ہے اسے ایک ایسی بیماری ہے جسے (Anthrophobia) کہتے ہیں.
وہ سارے دین کو بس اپنی اکیڈمی کے اندر تک محدود کرنے کے چکر میں ہے کیونکہ وہ علم کا بہت بڑا سمندر ہے اور اگر یہ سمندر اکیڈمی سے باہر نکلا تو عوام بہہ جائے گی اگر اس کے مکھڑے کو دیکھا جائے تو منہ سے رال ٹپکتی ہے میں اس بد بخت کو ان علماء کے جوتے بھی نہیں اٹھانے دونگا۔
جو ہم جیسے بدکاروں سیاہ کاروں کے لئے پوری راتیں مصلحے پر کھڑے ہو کر روتے ہیں اور امت کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور علماء شیخ القرآن اور شیخ الحدیث کی تھوک بھی اسے نہیں چاٹنے دونگا جو سو سو سال تک ایک چٹائی پر بیٹھ کر معقول ماہوار تنخواہ پر ساری عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا درس دیتے ہیں۔
مفتی صاحب اس فتنے کی گردن توڑ دیں اور انہیں ایسے عنوان سے نوازانہ کے اس کی اکیڈیمی میونسپل کمیٹی کی گندی کا ڈھیر ہو جسے آج کے نوجوان وقتاً فوقتاً جا کر سونگھیں اور ان کی یاد کو تازہ کریں خوشبو لگا کر کپڑوں کو تو اچھا کیا جا سکتا ہے لیکن کردار کی بد بو کو دنیا کا کوئی صابن نہیں دھو سکتا۔
مرزا انجینئر کے فالوورز کو ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ چوہے کی طرح موصوف بند کمرے سے باہر نہ نکل سکے۔ اور اپنے چمچوں کے ذریعے شرمناک قسم کےجھوٹی پوسٹ کرتے رہے جو ان کی بےشرمی اور ان کی جاہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ڈوب مرو ڈوب۔
محترم مفتی طارق مسعود صاحب اللہ آپ کو خوش رکھے آج آپ نے ثابت کردیا کہ باطل کبھی بھی حق کے سامنے ڈٹ کر کھڑا نہیں ہوسکتا۔
مفتی طارق مسعود صاحب کی ابھی کا بنایا ہوا ویڈیو ملاحظہ فرمائیں۔۔
حق کبھی ہار نہیں سکتی اور باطل کبھی جیت نہیں سکتی۔۔۔۔
ہمیں اپنے علمائے کرام پر فخرہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment